۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا علی عباس خان

حوزہ/ مقصد تک پہنچنے کے لیے ہر راستہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ حصول مقصد الٰہی کے لیے واحد راستہ 'صراط مستقیم' ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،علی گڑھ/ ہر سال کی طرح امسال بھی انجمن عباسیہ کی جانب سے عشرۂ مجالس، عماد الملک روڈ، اے ایم یو، علی گڑھ میں انعقاد کیا جا رہا ہے۔ مجلس کا سلسلہ جاری ہے۔ مجلس کو مولانا علی عباس خاں قم، ایران خطاب فرما رہے ہیں۔

گزشتہ شب کی مجلس کا آغاز مرثیہ خواں جناب شفاعت حسین و ہمنوا کی سوز خوانی سے ہوا ۔ انہوں نے اپنی دل نشین، دل سوز آواز اور مخصوص انداز میں فضائل و مناقب اور سلام شہدائے کربلا پیش کیا۔ جب آپ نے درج ذیل کلام پیش کیا تب عزاداروں کی آنکھیں نم ہو گئیں:

عابد کو جب یزید سے بابا کا سر ملا
سر کیا ملا کہ مرہمٍ زخمٍ جگر ملا

مولانا علی عباس خاں نے اپنے خطاب کا سرنامۂ کلام اُم الکتاب، قرآن حکیم کی سورۃ الملک کی پہلی اور دوسری آیات مبارکہ کو بنایا "بزرگ و برتر ہے وہ ذات جس کے قبضہ میں کائنات کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز کا مالک و مختار ہے جس نے موت و حیات کو پیدا کیا ہے۔ تاکہ تمہیں آزما سکے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر کرنے والا بھی۔"

مولانا موصوف نے امامٍ علیؑ ابن ابو طالب علیہ السلام کی دعا کی جانب لوگوں کو متوجہ کراتے ہوئے کہا کہ آپؑ نے ان لوگوں کے لیے دعائیں کی جن کو تین باتیں معلوم ہیں۔ ۱۔ کہاں سے آیا ہے، ۲۔ کہاں جائے گا، ۳۔ اور دورانٍ حیات دنیا میں کیا کرنا ہے۔

انہوں نے مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ خالق اور مخلوق کے رشتوں کو سمجھنا ہوگا کہ اس کی طرف سے آئے ہیں اور اس کی طرف پلٹنا ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ زندگی میں کیا کرنا ہے جس کی طرف انسان متوجہ نہیں ہوتا۔ غور کریں کہ آپ اپنے اوپر اپنا حق سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ اس کا مالک مختار خالق کائنات ہے۔ انسان اپنی زندگی کے مقصد کا پروجیکٹ و منصوبہ بناتا لیکن پروردگار نے مقصد خلقت کے لیے زبردست انتظام و اہتمام کیا: تعلیم، تربیت اور ہدایات کے لیے 1،24،000 انبیاء کرام بھیجے، ہر خشک و تر سے منظم قرآن کریم کا نزول ہوا، مسلسل راہنمائی کے لیے آئمہ اطہار علیہم السلام کو بھیجا ہے۔ خالق اور مخلوق، معبود و عبد کے رشتے کو سمجھیں کہ جس کی طرف سے آئے ہیں اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ انسان اپنی زندگی کے مقصد کے حصول کے لیے زندگی ختم کر دیتا ہے لیکن یہ سمجھ نہیں پاتے کہ جس نے بھیجا ہے اور جس کی طرف پلٹنا ہے آخر اُس کا مقصد کیا ہے اور اُس کے مقصد پر اپنا مقصد مقدم کرنا، یہی سے ناکامیابی کا آغاز ہوتا ہے۔ قرآنٍ کریم کی سورۃ الملک کی آیت مبارکہ نمبر ۱ اور ۲ اور قرآن ناطق کی دعا جو مذکورہ بالا میں ذکر ہے اس پر تدبر و تفکر کی اشد ضرورت ہے۔

مولانا علی عباس خاں نے بتایا کہ جس نے خلق کیا ہے وہی مقصد بھی بتائے گا ۔ یہ بنیادی سوال کو دین اور عقل بھی تائد کرےگا۔ جہاں سے خلقت ہوئی ہے وہیں سے مقصد بھی بتایا گیا ہوگا۔ یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ ترقی یافتہ زمانے میں مظلوم ہے 'دین، موضوع دین پر سب دخالت کرنے کو تیار ہیں۔ ناقص شئے بنائی جاتی ہے جبکہ دین ۱۸ ذوالحجہ ۱۰ ہجری کو مکمل و کامل ہو چکا ہے۔ انسان کی ترقی دیں کے سائے میں ہوتی ہے حیران و سرگردان ہو کر نہیں۔ عالم ہی معلم ہے اور جس کے کاندھے پر دین سکھانے کی ذمہ داری ہے۔ دین اور عقل میں رابطہ معرفت، روشن ضمیری اور تاباں دانائی و آگہی میں سمجھنا ہوگا۔ صرف قرآن کافی ہے یہ کہنے والوں کا حال عیاں ہے، کوئی دہشت گردی کے گروہ کارکن ہے تو کوئی گمراہی کے اندھیرے میں غرق ہے۔ حق کا فیصلہ اکثریت پر نہیں ہوتا۔ حق کو حق سے پہچانا جاتا ہے۔ حق علیؑ ہے اور حق علیؑ ہے۔ اب یہ نہ دیکھیں کہ علی کے ساتھ کون ہے اور علی کے ساتھ کون نہیں ہے۔ مقصد تک پہنچنے کے لیے ہر راستہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ حصول مقصد الٰہی کے لیے واحد راستہ 'صراط مستقیم' ہے۔

مجلسٍ عزا سے درس و عبرت حاصل کرنے کے لیے عزادارانٍ سید الشہداء کثیر تعداد میں شرکت کی جن میں پروفیسر قمر پرویز رضوی، سید صبط حیدر زیدی، شبیہ حیدر، ڈاکٹر عباس، اصغر مہدی، مبارک حسین زیدی، حسنین زیدی اور ڈاکٹر شجاعت حسین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .